متحدہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومتی رویے کو آمرانہ اور فسطائی قرار دے دیا سپیکر کے اس غیرپارلیمانی، غیرجمہوری اور غیرآئینی رویہ کے خلاف اپوزیشن مشاورت سے لائحہ عمل مرتب کرے گی پارلیمان کی کارروائی کو پاوں تلے روندا گیا، سپیکر نے آج سُرخ لکیر پار کرلی: شہبازشریف

متحدہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومتی رویے کو آمرانہ اور فسطائی قرار دے دیا
سپیکر کے اس غیرپارلیمانی، غیرجمہوری اور غیرآئینی رویہ کے خلاف اپوزیشن مشاورت سے لائحہ عمل مرتب کرے گی
پارلیمان کی کارروائی کو پاوں تلے روندا گیا، سپیکر نے آج سُرخ لکیر پار کرلی: شہبازشریف
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ سب غیر آئینی ہے:بلاول بھٹو زرداری
اسپیکر کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ قائد حزب اختلاف کو بات کرنے سے روک سکیں:بلاول بھٹو زرداری
حکومت نے اب عوام کی گرفتاری سے قبل وارنٹ کے حق کو بھی ختم کردیا ہے:بلاول بھٹو زرداری
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہبازشریف کی بلاول بھٹو، مولانا اسعدالرحمن ، میرکبیرسمیت اپوزیشن رہنماوں کے ہمراہ مشترکہ د پریس کانفرنس

اسلام آباد ( ) متحدہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومتی رویے کو آمرانہ اور فسطائی قرار دیتے ہوئے ایوان میں اپوزیشن لیڈر سمیت دیگر ارکان اور ترامیم پیش کرنے والے ارکان کو بولنے کی اجازت نہ دینے پر سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے رویے پر شدید احتجاج کیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت نے آج پارلیمان کی کارروائی پاوں تلے روندی ہے، سپیکر نے آج سُرخ لکیر عبور کی ہے، سپیکر کے خلاف ’اے۔پی۔سی‘ میں مشاورت سے جلد فیصلہ کریں گے، اپوزیشن فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے متعلق 12بلوں کی حمایت کرچکی ہے، اس کے باوجود ہماری حق عوام، آئین اور جمہوریت کے حق میں جائز ترامیم کو مسترد کیا گیا۔ یہ جمہوریت اور پارلیمان کی تاریخ میں سیاہ ترین دن ہے۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپوزیشن کے واک آوٹ کے بعد اپوزیشن چیمبر میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہبازشریف ، پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹوزرداری، جے یوآئی (ف) کے پارلیمانی لیڈر مولانا اسعدالرحمن، میر کبیر اور دیگر اپوزیشن ارکان پارلیمان اور رہنماوں کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ شہبازشریف نے کہا ہے کہ آج پارلیمان کی کارروائی کو پاوں تلے روندا گیا۔ تمام اپوزیشن نے قومی مفاد میں فاٹف کے قوانین میں بھرپور ساتھ دیا لیکن حکومت نے انتہائی غیرجمہوری اور غیرپارلیمانی رویہ اختیار کیا، سپیکر قومی اسمبلی نے آج سُرخ لکیر عبور کرلی، مجھے بھی بولنے نہیں دیاگیا۔ سپیکر کے اس غیرپارلیمانی، غیرجمہوری اور غیرآئینی رویہ کے خلاف اپوزیشن مشاورت سے لائحہ عمل مرتب کرے گی۔ انہوں نے کہاکہ فاٹف کے حوالے سے قانون سازی میں تمام اپوزیشن کی جماعتوں نے انفرادی اور اجتماعی طورپر پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا۔ فاٹف کے قوانین کی منظوری میں کردار ادا کیا۔ قومی مفاد کے معاملے میں کسی ذاتی مفاد کو آڑے نہیں آنے دیا۔ حکومت کے ساتھ کھڑے تھے تاکہ پاکستان کے مخالفین کو موقع نہ ملے۔ فاٹف پر بڑی تندہی سے بارہ بلز منظور کرائے۔ سینٹ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے کھلے دل اور پاکستانیت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کہاکہ اینٹی منی لانڈرنگ کے حوالے سے بلز پر اپوزیشن کے اعتراضات اور ترامیم تھیں۔ جن میں بغیر وارنٹ گرفتاری اور دیگر بنیادی انسانی حقوق اور قانون کے تقاضوںکے منافی شقوں پر ترامیم دی گئی تھیں۔ لیکن اپوزیشن کے کھلے دل اور پاکستانیت کے جواب میں حکومت نے تمام کارروائی کو بلڈوز کرنے کا غیرجمہوری، غیرآئینی اورغیرپارلیمانی رویہ کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ سپیکر نے آج پارلیمانی قوانین اور روایات کی تمام حدیں پھلانگ دیں۔ اس پریس کانفرنس کے ذریعے سپیکر سے ان کے رویے پر شدید احتجاج کرتا ہوں۔

انہوں نے کہاکہ سپیکر نے قائد حزب اختلاف کو بھی موقع نہیں دیا۔ میں نے جب سپیکر سے اجازت مانگی اور پھر ان کے ڈائس کے سامنے جاکر بھی ان کی توجہ مبذول کرائی لیکن انہوں نے مجھ سے بات تک نہیں کی۔ یہ سپیکر کا انتہائی غیر پارلیمانی رویہ ہے۔ شہبازشریف نے کہاکہ سپیکر کے بارے میں ہم باہمی مشاورت سے کوئی فیصلہ کریں گے۔ سپیکر نے آج سرخ لکیر پار کی ہے۔ پارلیمانی روایات کا آج سیاہ دن تھا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر نے کہاکہ حکومت کی طرف سے اپوزیشن کے خلاف طعنہ زنی اور جھوٹ کا پلندہ کہاگیا کہ یہ ’این۔آر۔او‘ مانگتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اپوزیشن کو این آر او کی کیا ضرورت ہے۔ اپوزیشن تو پہلے ہی نیب کے جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات کا اللہ تعالی کے سہارے اور جرات سے سامنا کررہی ہے۔ نوازشریف، آصف زرداری، مریم نواز، شاہد خاقان عباسی، رانا ثناءاللہ، حمزہ شہبازشریف ، خورشید شاہ سمیت ہم سب جیلوں کا سامنا کررہے ہیں، عقوبت خانوں میں رہے ہیں۔ آج بھی مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں سرمایہ کاری ختم ہوگئی ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ لاکھوں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ آٹا نایاب ہے۔گندم کی قیمت بائیس سو روپے سے تجاوز کرگئی ہے۔ چینی سو روپے کلو سے زائد پر فروخت ہورہی ہے۔ عوام کو بدترین حالات کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود ہم نے قومی مفاد میں حکومت کا ساتھ دیا۔ سسٹم کو ڈی ریل نہیں کرنا چاہے۔ لیکن حکومت نے جو رویہ دکھایا ہے، وہ غیرآئینی، غیرپارلیمانی اور غیرجمہوری ہے۔ اس پر جلد اے پی سی میں بیٹھ کر لائحہ عمل طے کریں گے

پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ ہم سب یہاں پورے پاکستان سے منتخب ہو کر آئے ہیں۔ ایک اہم قانون سازی جس کے نتائج پورے ملک پر مرتب ہوں گے، اس پر بات کرنا چاہتے تھے لیکن ایوان میں ہمیں بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ سب غیر آئینی ہے۔ اسپیکر کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ قائد حزب اختلاف کو بات کرنے سے روک سکیں۔ انہوں نے نہ صرف روکا بلکہ کسی کو بات نہیں کرنے دی۔ انہوں نے کہاکہ حکومت نے اب عوام کی گرفتاری سے قبل وارنٹ کے حق کو بھی ختم کردیا ہے۔ اب پولیس کو کسی کو گرفتار کرنے کے لیے وارنٹ کی ضرورت نہیں ہو گی۔ ایک محب وطن ہوتے ہوئے ہم ایسی ترامیم پیش کرنا چاہ رہے تھے جن سے یہ عوام دشمن قانون نہ بن سکے۔ ایسا رویہ پوری اسمبلی کا ماحول خراب کر دیتا ہے۔ ہم یہاں عوام کی بات کرنے آئے تھے۔

مولانا اسعد الرحمان نے اپوزیشن لیڈرشہبازشریف اور بلاول بھٹو زرداری کی گفتگو کی تائید کرتے ہوئے کہاکہ آج قومی اسمبلی اجلاس میں دستوری،قانونی اور آئینی تقاضے پامال ہوئے۔ آج جو بل پاس کئے گئے، اور جیسے پاس کئے گئے، ان کی کوئی قانونی اور دستوری حیثیت نہیں۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں جب تک احتساب کے فیصلے واٹس ایپ اور دباو پرہوں گے تو کیسے انصاف ہوگا؟ اگر ہمیں شریعت کسی دباو یا بندوق پر قبول نہیں تو ہم کسی دباو پر قانون سازی بھی قبول نہیں کرسکتے۔ جمہوریت اور آئین کے تحت مجھے ملنے والا میرا استحاق کیسے لیا جا رہا ہے؟جو قانون سازی جس انداز سے بھی پارلیمان اور قومی خودمختاری کے خلاف ہو گی، اسے ہم مسترد کریں گے۔ آج جب دو منٹ اپوزیشن جماعتوں کو دینے کی بات کی تو ایک غیر منتخب شخص اسپیکر کو وقت دینے سے منع کر رہا تھا۔ اپوزیشن مطالبہ کر رہی تھی کہ ایوان میں ارکان کی تقسیم کریں تاکہ پتہ چلے کہ کتنے لوگ کس کے ساتھ ہیں؟ انہوں نے کہاکہ میڈیا میں ختم نبوت پشاور کا اجلاس نہیں دکھایا گیا تو میڈیا پر میرے خلاف بات بھی نہیں ہونا چاہیے تھی۔ جب میں اختلاف کر رہا تھا تو اپوزیشن کو بولنے نہیں دیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ حکومت سے یہ بھی برداشت نہیں ہوا کہ کوئی اس کو ترمیم دے۔ میں اس حوالے سے سنجیدہ تحفظات رکھتا ہوں۔ ”کل جماعتی کانفرنس“ (اے پی سی) میں ہم اس معاملے پر سنجیدہ بات کریں گے اور فیصلے سامنے لائیں گے۔ اپوزیشن رہنما میر کبیرنے کہکاکہ آج حکومت نے بزور طاقت ہماری اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا۔ آج حکومت نے 2018 کی یاد کو تازہ کیا۔ ہم نے نیک نیتی سے ترامیم پیش کرنا چاہیں لیکن حکومت نے غیر سنجیدگی کی انتہا کی۔ انہوں نے کہاکہ آج پاکستان اس دور سے گزر رہا ہے کہ گذشتہ 74 سال میں اس سطح سے نہیں گزرا۔ ٓج دنیا میں حکومت نے پاکستان کو تنہا کر دیا ہے۔ ترکی ملائشیا اور سعودی عرب ہم سے دور جا چکے ہیں۔ ان کو لانے والے بھی اب پریشان ہیں۔ ہم اے پی سی میں اس پر بات کریں گے کہ کیسے عوام کو ان سے نجات دلائیں۔