فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم جاری ہیں۔جب فلسطین کا نام آتا ہے تو کشمیر کے مظالم کی بھی یاد آ جاتی ہے۔یہ انسانیت پر ظلم کے زمرے میں آتا ہے،عید کیا منانی ہے عید پر فلسطینوں پر مظالم کئے جارہے تھے۔عید پر نئے کپڑے خریدے جاتے ہیں فلسطینیوں نے عید پر کفن خریدے۔جب سے ہندوستان نے آرٹکل 370 کے بعد جو قیامت کشمیریوں پر مسلط کی ہے ہم سب مذمت تک ہی محدود ہےں۔جب کشمیریا فلسطین پر مظالم ہوتے ہیں تو دنیا اس پر خاموش ہوجاتی ہے۔جبکہ کوئی چھوٹا سا واقعہ دنیامیں ہوتا ہے توپوری مسلم امہ کو کٹہرے میں کھڑاکردیا جاتاہے،امن کی جگہ مسجد میں گھس کر لوگوں کو شہید کیا گیا۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ عالمی کریمنل کورٹ میں اس حوالے سے کچھ نہیں کیا گیا ۔اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب ہوا ہے۔عرب اسرائیل وار ہو یا بیروت کی جنگ ہو پاکستان کی مسلح افواج نے اپنا کردار ادا کیا۔اسلامی سربراہی کانفرنس جو پاکستان میں ہوئی اس میں کہا گیا کہ فلسطین میں امن ہونا چاہیے ۔اوسلو ایوارڈ بھی ہوا بل کلنٹن کے دور میں جس میں کہا گیا کہ کوگوں کو انکا حق ملنا چاہیے۔لیکن اس پر بھی عمل نہیں ہوسکا۔جس طرح کشمیری اپنی بقاءکی جنگ لڑ رہے ہیں اسی طرح فلسطینی بھی اپنی جنگ لڑ رہے ہیں۔اسرائیل نے ہمیشہ عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیری ہیں۔دنیا نے اسرائیلی مظالم پر انکھوں پر پٹی باندھ لی ہے۔صرف زبانی کلامی مذمت سے کام نہیں چلے گا۔فلسطین کے عوام کو سب جیل میں بدل دیا گیا ہے۔بچے بوڑھے عورتوں پر مظالم جاری ہیں۔ان لوگوں کو شہید کیا گیا۔اب بھی کئی لوگ اسرائیلی جیلوں میں ناجائز قید و بند کی صوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔دنیا نے دوہرے معیار اپنائے ہوئے ہیں۔آج سپیشل دن تھا فلسطین کے حوالے سے جب ہم خواتین کے ساتھ ایوان میں آرہے تھے تو سیکورٹی والوں نے ہمیں روکا۔اس کی انکوائری ہونی چاہیے۔فلسطین کا معاملہ آج کا نہیں ہے۔ یہ بائی ڈئزائن سب کچھ ہورہا ہے۔وزیر خارجہ کا اقوم متحدہ میں بیان سب کے دلوں کی آواز ہے۔لیکن قراردادیں مذمت سے کچھ نہیں ہوگا۔نیتن یاہو قصائی وزیراعظم کا کردار ادا کر رہا ہے ۔ہم سب کو سفیر بن کر دنیا کی آنکھیں کھولنی چاہیے۔آج سیاست نہیں کرنا چاہتا لیکن آج پاکستان کے مسائل بہت گھمبیر ہیں۔خارجہ معیشت مہنگائی وغیرہ کے مسائل حاوی ہیں۔آج پاکستان میں واضع سیاسی تقسیم ہے۔مہنگائی بے روز گاری عروج پر ہے میں آج یہ بات نہیں کرنا چاہتا۔اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے دوران حکومتی خواتین کے جملے۔اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شریف نے احتجاجاً اپنا خطاب ختم کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ میں ماحول کو خراب نہیں کرنا چاہتا۔ زندگی میں پریشانیاں آتیں ہیں۔کسی کو تنقید کا نشانہ نہیں بنا رہا۔ہمارے کلپچر میں برداشت ختم ہورہی ہے۔فلسطین اور کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر ہمیں اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔فلسطین اور کشمیر عملی طور پر جیل بن چکا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم انکے زخموں پر مرہم رکھ سکیں۔