پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہبازشریف نے وزیراعظم عمران خان کا ریلیف پیکج مسترد کردیا

موجودہ حکومت کے وعدوں اور بجٹ کی طرح ان کے نام نہاد ریلیف پیکج بھی جھوٹ کا پلندہ ہیں

کیا بجٹ دیتے ہوئے نہیں کہاگیا تھا کہ یہ ٹیکس فری بجٹ ہے؟ اب قوم سے خطاب پر اعتراف کیاجارہا ہے کہ پٹرول مہنگا ہوگا

جب پٹرول مزید مہنگا ہوگا، بجلی گیس کی قیمت بڑھے گی تو مہنگائی کیسے نہیں ہوگی؟

جس حکومت کے بجٹ اعدادوشمار ناقابل اعتبار ہوں، اس کی کسی بات کو سنجیدہ سمجھنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں

ملک قرض کے بوجھ میں دب چکا ہے، آئی ایم ایف کی شرائط نے قوم کا بھرکس نکال دیا ہے، ریلیف اور پی ٹی آئی دومتضاد چیزیں ہیں

نام نہاد ریلیف پیکج کے اعلان کے وقت ہی یوٹلیٹی سٹور پر گھی اور خوردنی تیل 65 روپے لیٹر مہنگا ہونے کا اعلان ہورہا تھا

ہول سیل مارکیٹ میں چینی 130 روپے کلو سے تجاوز کرچکی ہے، کوئٹہ میں 50 کلو چینی کی بوری میں 270 روپے اضافہ ہوا

دو دن میں چینی کی فی کلو قیمت میں 5 روپے اضافہ ہوا ، جھوٹے وعدے کرنے والی حکومت کی کسی بات پر قوم کو اعتماد نہیں

ملک میں چینی کا ذخیرہ 15 روز کا رہ گیا ہے اور ٹی وی پر خطاب کا شوق پورا کیاجارہا ہے

مہنگائی کا تاریخی ریکارڈ قائم کرنے کے بعد خطاب کی نہیں ، ناکامی کے اعتراف کے ساتھ استعفی دینے کی ضرورت ہے

مہنگائی کو عالمی مسئلہ قرار دے کر عمران نیازی حکومت اپنی نااہلی، نالائقی ، غلط فیصلوں اور کرپشن چھپا نہیں سکتی

حکومت کیسے ہوتی ہے، نوازشریف نے دکھایا تھا، ترقی کی شرح 5.8 فیصد اور مہنگائی کی شرح 3.6 فیصد پر لائے تھے

آپ 3 سال میں 15000 ارب قرض لیں تو مہنگائی، بے روزگاری تو ہوگی

جو عوام کو ریلیف نہیں دے سکتا، وہ حکومت بھی نہیں کرسکتا، ظلم کی حکومت نہیں چل سکتی

یہ حکومت عوام کی گردن پر چھری چلا کر کہتی ہے کہ ریلیف دے رہے ہیں

قوم کو یہ سبق یاد ہوچکا ہے کہ مہنگائی بڑھتی ہے تو وزیراعظم چور ہے

آئی ایم ایف سے سبسڈی ختم کرنے کا وعدہ کرنے والی حکومت 120 ارب سبسڈی پیکج دینے کا دھوکہ دے رہی ہے

یہ پیسہ کہاں سے آئے گا؟ کیسے خرچ ہوگا؟ 1200 ارب کورونا اور کراچی پیکج کے پیسوں پر سنگین سوالات پر کوئی جواب نہیں

آئی ایم ایف سے کیا شرائط طے ہو رہی ہیں، پارلیمنٹ سے کیوں چھپایا جا رہا ہے؟