٭ پاکستان کے عوام کو اپنے معیار زندگی میں بہت بڑی تنزلی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 2018 میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے جب حکومت چھوڑی تھی تو پاکستان کی معیشت کا حجم 313 ارب امریکی ڈالر تھا۔ تین سال بعد عمران خان نے اس میں 5.5 فیصد کمی کرتے ہوئے 296 ارب امریکی ڈالر پر پہنچا دیا ہے جبکہ ہماری آبادی کی رفتارتین سال میں 7.5 فیصد بڑھ چکی ہے جبکہ سالانہ اڑھائی فیصد بڑھ رہی ہے۔ یعنی پاکستانیوں کی آمدنی میں براہ راست کمی آئی ہے اور ان کی قوت خرید میں 13 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔ ان تین سال کے دوران پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہماری شرح نمو (جی ڈی پی) ڈالرز میں کم ہوئی۔
٭ اپنے پانچ سال کے دور حکومت میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے شرح نمو (جی ڈی پی) 2.8 فیصد سے بڑھا کر 5.8 فیصد کی، افراط زر (مہنگائی) 11.8 فیصد سے 3.9 فیصد کی اور ٹیکس وصولی 1946 سے دوگنا بڑھا کر تقریبا 3900 ارب روپے کی۔ تین سال میں انتہائی زیادہ مہنگائی (افراط زر) کے باوجود پی ٹی آئی کی ٹیکس وصولی جمود کا شکار رہی اور جی ڈی پی کے فیصد کے لحاظ سے اس میں کمی آئی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور کے مقابلے میں پی ٹی آئی نے مہنگائی میں تین گنا اضافہ کیا، کھانے پینے کی اشیاءمیں پانچ گنا اضافہ ہوا اور اس کے نتیجے میں معاشی نمو میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوئی۔ تین سال بعد اگر ہم پی ٹی آئی کے متنازعہ اور ناقابل اعتبار اعدادوشمار کو قبول کرلی بھی لیں تو بھی فی کس آمدنی کے لحاظ سے روپے کی حقیقی قدر میں جی ڈی پی کم ہوا ۔
1۔ جی ڈی پی:
پاکستان مسلم لیگ (ن) حکومت کے آخری برس جی ڈی پی کی شرح نمو 5.8 فیصد تھی جو 16 سال میں بلند ترین تھی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پانچ سال کے دوران ہر سال جی ڈی پی 4 فیصد سے زائد کی شرح سے مسلسل بڑھ رہا تھا۔ پی ٹی آئی کے دور میں جی ڈی پی میں نمایاں اور مسلسل کمی آئی ۔ 2019 میں 2.1 فیصد اور 2020 میں منفی 0.5 فیصد شرح نمو رہی جو 1952 کے بعد سب سے کم ترین سطح تھی۔ پی ٹی آئی 2021 میں شرح نمو 3.9 فیصد ہونے کا دعوی کررہی ہے لیکن اس دعوے کو غیرجانبدار معاشی ماہرین چیلنج کررہے ہیں۔ پی ٹی آئی کا یہ دعوی بالفرض مان بھی لیا جائے تو بھی تین سال میں پی ٹی آئی کے دور کی اوسط جی ڈی پی شرح نمو1.8 فیصد بنتی ہے جو آبادی میں اضافے کی رفتار کی شرح سے کم ہے۔
2۔ بے روزگاری اور غربت:
٭ پی ٹی آئی حکومت کی غلط پالیسیز اور بدانتظامی سے ملک میں بے روزگاری اور غربت میں خوفناک اضافہ ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں 50 لاکھ پاکستانی بے روزگار ہوگئے جبکہ اضافی 2 کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے۔
٭ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے دورحکومت مکمل کیا تو پاکستان میں صرف 35 لاکھ بے روزگار رہ گئے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنے پانچ سال کے دور میں روزگار کے مواقع پیدا کئے۔ تین سال میں پی ٹی آئی نے اضافی 50 لاکھ لوگوں کو بے روزگار کردیا۔ آج پاکستان میں بے روزگار افراد کی تعداد تقریبا 85 لاکھ ہے اور ملک میں بے روزگاری کی شرح تقریبا 15 فیصد ہے جو ملک کی تاریخ میں بے روزگاری کی سب سے بلند ترین شرح ہے۔
٭ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو 2013 میں جب وفاقی حکومت کی ذمہ داری ملی تو تقریبا ساڑھے 7 کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ پانچ سال کے دور حکومت میں غربت کے خاتمے کی کوششوں کے نتیجے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) 2 کروڑ لوگوں کو بدترین غربت کے شکنجے سے نکالنے میں کامیاب ہوئی۔ پی ٹی آئی کی غریب کُش اور غلط پالیسیز کے باعث تین سال سے بھی کم عرصے میں 2 کروڑ مزید لوگ بدترین غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔ اس طرح عمران خان نے ”غربت“ ختم کی اور اس تمام محنت پر پانی پھیر دیا جو پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنے پانچ سال کے دور میں دن رات کی تھی۔
3۔مہنگائی (افراط زر) اور حقیقی آمدنی:
٭ غیرہنرمندافراد کی حقیقی آمدن گزشتہ تین سال میں 18 فیصد کم ہوچکی ہے۔ وفاقی اور صوبائی عوامی ترقیاتی (پبلک ڈویلپمنٹ) اخراجات میں جی ڈی پی کے تعلق سے تقریبا نصف یا 2.5 فیصد کمی ہوئی، جی ڈی پی کے 2.5 فیصد کی نسبت سے اس کمی نے بے روزگاری کو مزید بڑھایا۔
٭ اس پر شدید ترین مہنگائی خاص طورپر کھانے پینے کی اشیاءیا خوراک کی قیمتوں میںایک دہائی میں سب زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا جس سے عوام پر ناقابل برداشت بوجھ پڑا اور ان کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول محال ہوگیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے اختتام کے بعد آٹے (گندم) کی قیمت 70 روپے فی کلو اور چینی کی قیمت 110 روپے کلو ہے۔ یہ پی ٹی آئی کی غلط پالیسیز کا براہ راست نتیجہ ہے جو مافیاز کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے اور اشیاءکی فراہمی برقرار رکھنے، اس کے مناسب انتظام میں نہ صرف ناکام رہی بلکہ اس میں بدترین اور مجرمانہ نااہلی کی مرتکب ہوئی۔
٭ قیمتوں خاص طورپر کھانے پینے کی اشیاءمیں اس ہوشربا اضافے کی بنیادی وجہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر کیا جانے والا اضافہ بھی ہے، اس کے علاوہ نوٹ چھاپنا اور پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ خسارہ ہے۔
4۔ قومی دفاع:
٭ 2018 کے آخری برس ہمارے ٹیکس اور نان ٹیکس ریونیوز اتنی مقدار میں موجود تھے جس میں سے ہم صوبوں کو ان کا حصہ دینے اور قرض کی ادائیگی کے علاوہ قومی دفاع کی ضروریات پوری کرلیتے تھے اور اس کے بعد بھی کچھ رقم ہمارے پاس بچ جاتی تھی۔ لہذا دفاع اور قرض کی ادائیگی کی رقم محفوظ ہوتی تھی۔
٭ تین سال کے مختصر عرصے میں اب صورتحال یہ ہے کہ فی کس آمدنی میں منفی شرح نمو، منفی کے بعد کم ترین قومی شرح نمو، انتہائی زیادہ مہنگائی، بلند ترین افراط زر کے باوجود جی ڈی پی کے فیصد کے لحاظ سے ٹیکس وصولیوں میں کمی ہوئی ہے۔ لہذا رواں برس قابل تقسیم محاصل سے صوبوں کو حصہ دینے اور قرض کی ادائیگی کے بعد دفاع سمیت کسی اور چیز پر خرچ کے لئے یا تو پیسے نہیں ہوںگے یا پھر انتہائی قلیل مقدار میں ہوں گے۔ لہذا قومی دفاع کے لئے تقریبا تمام رقم ہی ادھار لینا پڑے گی جو ہماری سلامتی کے لئے ایک مالیاتی خطرہ ہوگا۔