لاہورہائیکورٹ کے معزز جج صاحبان کے شہبازشریف کی ضمانت منظور کرنے کے تفصیلی فیصلے کے اہم نکات

دلچسپ امر یہ ہے کہ نیب نے ہمارے روبرو دوٹوک طورپر یہ اعتراف کیا ہے کہ درخواست گزار ( ٹیشنر) نے کسی قسم کے کک بیکس وصول نہیں کئے اور نہ ہی کسی فیور کے بدلے غیرقانونی رقوم حاصل کی ہے جس کے ذریعے اس نے اپنے اہل خانہ کے نام پر یہ اثاثہ جات بنائے ہیں۔

نیب نے الزام لگایا کہ پارٹی کے حامیوں نے پارٹی فنڈز کے نام پر کچھ رقوم دی ہیں جسے پٹیشنر نے اپنے ذاتی فائدے میں استعمال کیا۔ اگر معاملہ ایسا بھی سمجھ لیاجائے تو یہ دو افراد کے درمیان تنازعہ ہوسکتا تھا یا الیکشن کمشن آف پاکستان کے زیرغور لائے جانے کا معاملہ ہوسکتا تھا کہ کسی ناپسندیدہ شخص سے پارٹی فنڈز وصول کرلئے گئے اور ان کی منی ٹریل فراہم ہوتی۔ (پیرا17، صفحہ21)

پٹیشنر (شہبازشریف) کے ذرائع آمدن معلوم کرنے کے لئے کوئی تحقیقات نہیں کی گئیں۔

ہمیں یہ کہنے میں ہرگزتامل نہیں کہ اپنی نیم دلانہ کوشش سے نیب پٹیشنر کے خلاف اپنا مقدمہ ثابت کرنے کی ذمہ داری سے جان نہیں چھڑا سکتا کیونکہ شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو جاتا ہے اور الزام ثابت کرنے کی ذمہ داری اس وقت ہی تبدیل ہوتی ہے جب استغاثہ اپنی (الزامات ثابت کرنے سے متعلق) ابتدائی ذمہ داری پہلے پوری کرے۔ (پیرا 18، صفحہ22)

بریگیڈئیر (ر) امتیاز احمد کے مقدمے میں استغاثہ نے ملزم کے انکم ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس کے دستاویزات پیش کئے تھے لیکن ان کے دیگر ذرائع آمدن اور ان کی اہلیہ کی بے نامی ٹرانزیکشنز (رقوم بھجوانے) کے اجزاءتلاش کرنے اورانہیں ثابت کرنے میں میں ناکام رہا تھا۔ لہذا اب یہ قانون ہے کہ انکم ٹیکس ریٹرن میں ٹرانزیکشن کو سچ مانا جاتا ہے۔

عبدالعلیم خان بنام ریاست وغیرہ (رٹ پٹیشن نمبر16630 آف 2019) میں مورخہ 15 مئی 2019 کو فیصلہ ہوا جس میں اس عدالت نے ان وجوہات پر ضمانت منظور کی کہ انکم ٹیکس ریٹرنز میں جائیدادیں ظاہر کی گئی تھیں۔ یہاں تک کہ عزت مآب جج (اسد جاوید گھرال) اس مقدمہ میں اختلافی نکتہ نظرکا اظہار کرنے سے قبل رٹ پٹیشن نمبر 3623 آف 2021 (مظہر حسین عارف بنام قومی احتساب بیورو وغیر) میں ٹیکس ریٹرنز میں رقم کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے ضمانت دے چکے ہیں (پیرا 19 اور20، صفحہ 23)

لہذا اکٹھے (ایک جگہ ) رہنا اس بات کا ثبوت نہیں کہ کوئی گزربسر کے لئے کسی دوسرے پر انحصار کرتا (ڈی پنڈنٹ) ہے۔

پٹیشنر کے ذاتی نام پر خریدی گئی یا ملکیتی جائیدادکی غیرموجودگی اور ان کے خاندان کے افراد کے ان پر’ ڈی۔ پنڈنٹ‘ ہونے کے کسی براہ راست ثبوت کی عدم موجودگی میں یا بعینہ اسی طرح کسی براہ راست ثبوت کی عدم موجودگی میں کہ کوئی ناجائز یا غیرقانونی رقم یا منی لانڈرنگ کے طورپر ٹی ٹیز کے ذریعے پیسے ان کے اکاونٹ میں آئے، ہم سچائی کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے استغاثہ کا کیس تسلیم نہیں کرسکتے۔ (پیرا21، صفحہ25)